RSS

Tag Archives: fazli

FAZAL AHMAD KARIM FAZLI

 (Copied from internet site, http://www.pakistanconnections.com/people/detail/1003,)
English rendition is mine.

Fazal Ahmad Karim Fazli (فضل احمد کریم فضلی )

فضل احمد کریم فضلی

اصل نام سید فضل احمد کریم نقوی اور تخلص فضلی تھا۔ 5 نومبر 1906 ء کو اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن الہ آباد تھا۔ خاندان کے سارے افراد علم دوست اور شعرو سخن کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے والد سید فضل رب فضل اپنے عہد کے خوشگوارشعرأ میں شمارکیے جاتے تھے۔ اس طرح فضلی صاحب کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا۔ فضلی صاحب کم عمری ہی میں غالب، ذوق، اکبراور اقبال سے متعارف ہو چکے تھے۔ پھر والد محترم کی وجہ سے بہت سے شعرأ حضرات بھی ان کے گھر آتے تھے جن میں صفی لکھنوی، ظریف لکھنوی، اثر لکھنوی اور جگر مراد آبادی بھی شامل تھے۔ اس سے سارے ماحول اور پس منظر کا نتیجہ یہ ہوا کہ فضلی صاحب نے بارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا۔ شروع میں اصلاح کے لیے وہ اپنے شعر والد کودکھایا کرتے تھے۔ لیکن ان کے والد نے فضلی صاحب کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ انہیں یہ ہدایت فرماتے تھے کہ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شاعری کرنا لیکن وہ خفیہ طور پر شعر کہتے اور دوستوں کی فرمائش پر نجی محفلوں میں پڑھتے تھے۔
فضل احمد کریم نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ پانچ سال کی عمر میں ’’رسم بسم اﷲ‘‘ ہوئی اور پھر قرآن پاک کی تعلیم شروع ہوئی۔ ڈیڑھ سال میں انہوں نے قرآن پاک ختم کر لیا۔ 1926 ء میں انہوں نے ایوننگ کر سچین کالج الہ آباد سے انٹر اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ 1930 ء میں کلکٹری اور آئی سی ایس کے امتحانات دئیے۔ آئی سی ایس کے امتحان میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے بعد تربیت کے لیے آکسفورڈ یو نیورسٹی بھیج دئیے گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے The Orignal Development of Persain Ghazal پر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔
لندن سے واپسی پر بنگال میں ان کی تعیناتی ہوئی جہاں سے انہوں نے بنگالی زبان بھی سیکھ لی۔ وہ سیکر یٹر ی محکمہ تعلیمات مشرقی پاکستان رہے اور کچھ عرصے فضل احمد صاحب وزارت امور کشمیر کے سیکر ٹری بھی ہوئے۔ فضلی صاحب کراچی میں الہ آباد یو نیو رسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے صدربھی رہ چکے تھے۔ اولڈ بوائز کے جلسوں میں تشریف لاتے تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلویہ تھا کہ وہ آئی سی ایس ہوتے ہوئے بھی عجز و انکسار کے مجسمہ تھے۔
فضلی صاحب یوں تو بلند پایہ غزل گو شاعر تھے مگر ان کی اور بھی مختلف حیثیتیں تھیں۔ وہ افسانہ نگار، فلمساز، اعلیٰ سول آفیسر اور ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ فضل احمد کریم فضلی صاحب نے اپنا پہلا ناول’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ لکھ کر علمی و ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور ساتھ ساتھ ذہنوں کو جھنجلا کے رکھ دیا تھا۔ یہ ان کا ضخیم ناول تھا۔ ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں ’’پاکستانی ثقافت و وطنیت کے چند پہلو‘‘، شاعری کے مجموعے ’’چشم غزال‘‘، ’’نغمہ زندگی‘‘ (جو تقسیم سے پہلے 1941 ء کو شائع ہو گیا تھا) شامل ہیں۔
پاکستان میں ملازمت کے بعد وہ فلم سازی کی طرف آگئے اور کچھ فلمیں بھی بنائیں جن میں ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘، ’’ چراغ جلتا رہا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کو بہت شہرت ہوئی تھی۔ اس فلم نے پاک فلم انڈسٹری کو کئی کامیاب فن کار دئیے۔
17 ،دسمبر 1981ء کو ’’چشم غزال‘‘ کا شاعر ’’نغمہ زندگی‘‘ سناتے سناتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ انہیں پی ای سی ایچ کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی تصانیف میں ایسا بھی ہوتا ہے، خون جگر ہو نے تک(ناول)،چراغ جلتا رہا، سحرہو نے تک(ناول)،نغمہ زندگی، (مجموعہ کلام)، وقت کی پکار قابل ذکر ہیں۔ فضلی صاحب کے کلام کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔

غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
نہ ہو یہ کھیل تو پھرلطف زندگی بھی نہیں

نہیں کہ دل تمنا میرے کوئی بھی نہیں
مگر ہے بات کچھ ایسی کہ گفتنی بھی نہیں


وہ کہہ رہے ہیں مجھے قتل کرکے اے فضلی
کہ ہم نہیں جو ترے قدر داں کوئی بھی نہیں

حسن ہر شے میں ہے گر حسن نگاہوں میں ہو
دل جواں ہوتو ہر اک شکل بھلی لگتی ہے

ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل
غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں

Real name was Fazal Ahmad Karim and Fazli was his pen name. He was born in Azam GaRh, India on 5 November, 1906 and Allahabad was his home town. His family was well versed in literature and poetry.His father himself was a good poet and thus he inherited the love of poetry from him. From childhood he got acquainted with Ghalib, Iqbal, Zauq and Akbar. Due to the fact that his father was a poet, poets like Asar Lukhnawi, Safi Lukhnawi, Zareef Lukhnawi and Jigar Moradabadi used to frequent his house. This literary atmosphere had the effect on him so much that he started composing couplets right from the age of 12. He at first showed his father his work for scrutiny. His father did not encourage him much saying he should concentrate on his studies first. He continued writing poetry in secret and frequently read in friendly poetic meets with his friends.He did his B.A. from Allahabad University and then appeared in ICS Exams which he qualified with colours. He was sent to Oxford, England for further training where he wrote a paper on “THE ORIGINAL DEVELOPMENT OF PERSIAN GHAZALS” and earned D. Lit. degree. Upon return he was posted to Bengal where he also learnt Bangla Bhasha. He was later the secretary Education in East Pakistan. In Karachi he was president of Allahabad University Old Boys club. He was very humble despite being an ICS Officer. Besides being a great poet, he was at the same time a short story writer and film producer. His first novel, voluminous as it was,  by the name of “Khoon e jigar hone tak” was huge success and created quite a stir in the helm of literature. His other publications include “Pakistan ki saqafat aur tabiyat ke chand pahloo”, majmua e ghazal,”Chashm e Ghazaal” and “Naghma e zindagi”

He later became film producer and produced ,”Aysa bhi hota hai” and “Chiragh Jalta raha” etc.

He died in 19981 and is buried in Karachi.

ज़हरे ग़म खा के भी अच्छा तो हूं , और क्या चाहिए हँसता तो हूं

दिले दुश्मन में खटकता तो हूँ , कुछ न होने पे भी इतना तो हूँ

क्या करूँ आह जो मुंह से निकले , वैसे खामोश मैं रहता तो हूँ

क्या ज़रूरत मुझे वीराने की, बज़मे यारां में भी तनहा तो हूँ

तुम अगर मेरे नहीं हो, न सही ,मैं बहर हाल तुम्हारा तो हूँ

जाने वहशत के मुहब्बत है मुझे , खोया खोया हुआ रहता तो हूँ

देखिये देखिये कब आते हैं, आने वाले हैं, यह सुनता तो हूँ

आप को खेल तमाशे हैं पसंद , मैं भी एक खेल तमाशा तो हूँ

आप देखें न तो क्या इसका इलाज ,वैसे मैं बज़्म में बैठा तो हूँ

हाले ज़ार उनसे कहूँ क्या फ़ज़ली , वोह समझते हैं मैं अच्छा तो हूँ

 
Leave a comment

Posted by on November 15, 2015 in Uncategorized

 

Tags: , , , , , , , ,